صحیفہ کاملہ

48۔ عید قربان اور جمعہ کی دعا

(۴۸) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

یَوْمَ الْاَضْحٰى وَ یَوْمَ الْجُمُعَةِ

عید الاضحیٰ اور روز جمعہ کی دُعا:

اَللّٰهُمَّ هٰذَا یَوْمٌ مُّبَارَكٌ مَیْمُوْنٌ، وَ الْمُسْلِمُوْنَ فِیْهِ مُجْتَمِعُوْنَ فِیْۤ اَقْطَارِ اَرْضِكَ، یَشْهَدُ السَّآئِلُ مِنْهُمْ وَ الطَّالِبُ، وَ الرَّاغِبُ وَ الرَّاهِبُ، وَ اَنْتَ النَّاظِرُ فِیْ حَوَآئِجِهِمْ.

بار الٰہا! یہ مبارک و مسعود دن ہے جس میں مسلمان معمورۂ زمین کے ہر گوشہ میں مجتمع ہیں، ان میں سائل بھی ہیں اور طلبگار بھی، ملتجی بھی ہیں اور خوف زدہ بھی، وہ سب ہی تیری بارگاہ میں حاضر ہیں اور تو ہی ان کی حاجتوں پر نگاہ رکھنے والا ہے۔

فَاَسْئَلُكَ بِجُوْدِكَ وَ كَرَمِكَ، وَ هَوَانِ مَا سَئَلْتُكَ عَلَیْكَ اَنْ تُصَلِّیَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ.

لہٰذا میں تیرے جود و کرم کو دیکھتے ہوئے اور اس خیال سے کہ میری حاجت براری تیرے لئے آسان ہے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر۔

وَ اَسْئَلُكَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَا بِاَنَّ لَكَ الْمُلْكَ، وَ لَكَ الْحَمْدَ، لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ، الْحَلِیْمُ الْكَرِیْمُ، الْحَنَّانُ الْمَنَّانُ، ذُو الْجَلَالِ وَ الْاِكْرَامِ، بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ، مَهْمَا قَسَمْتَ بَیْنَ عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِیْنَ: مِنْ خَیْرٍ اَوْ عَافِیَةٍ اَوْ بَرَكَةٍ، اَوْ هُدًى اَوْ عَمَلٍ بِطَاعَتِكَ، اَوْ خَیْرٍ تَمُنُّ بِهٖ عَلَیْهِمْ تَهْدِیْهِمْ بِهٖ اِلَیْكَ، اَوْ تَرْفَعُ لَهُمْ عِنْدَكَ دَرَجَةً، اَوْ تُعْطِیْهِمْ بِهٖ خَیْرًا مِّنْ خَیْرِ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ، اَنْ تُوَفِّرَ حَظِّیْ وَ نَصِیْبِیْ مِنْهُ.

اے اللہ! اے ہم سب کے پروردگار! جبکہ تیرے ہی لئے بادشاہی، اور تیرے ہی لئے حمد و ستائش ہے، اور کوئی معبود نہیں تیرے علاوہ، جو بردبار، کریم، مہربانی کرنے والا، نعمت بخشنے والا، بزرگی و عظمت والا اور زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے، تو میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ جب بھی تو اپنے ایمان والے بندوں میں نیکی یا عافیت یا خیر و برکت یا اپنی اطاعت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق تقسیم فرمائے، یا ایسی بھلائی جس سے تو ان پر احسان کرے اور انہیں اپنی طرف رہنمائی فرمائے، یا اپنے ہاں ان کا درجہ بلند کرے یا دنیا و آخرت کی بھلائی میں سے کوئی بھلائی انہیں عطا کرے، تو اس میں میرا حصہ و نصیب فراواں کر۔

وَ اَسْئَلُكَ اللّٰهُمَّ بِاَنَّ لَكَ الْمُلْكَ وَ الْحَمْدَ، لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ، اَنْ تُصَلِّیَ عَلٰى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَّ رَسُوْلِكَ، وَ حَبِیْبِكَ وَ صِفْوَتِكَ وَ خِیَرَتِكَ مِنْ خَلْقِكَ، وَ عَلٰۤى اٰلِ مُحَمَّدٍ الْاَبْرَارِ الطَّاهِرِیْنَ الْاَخْیَارِ، صَلَاةً لَّا یَقْوٰى عَلٰۤى اِحْصَآئِهَاۤ اِلَّاۤ اَنْتَ، وَ اَنْ تُشْرِكَنَا فِیْ صَالِحِ مَّنْ دَعَاكَ فِیْ هٰذَا الْیَوْمِ مِنْ عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِیْنَ یَا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ، وَ اَنْ تَغْفِرَ لَنا وَ لَهُمْ، اِنَّكَ عَلٰى‏ كُلِّ شَیْ‏ءٍ قَدِیْرٌ.

اے اللہ! تیرے ہی لئے جہاں داری اور تیرے ہی لئے حمد و ستائش ہے، اور کوئی معبود نہیں تیرے سوا، لہٰذا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو رحمت نازل فرما اپنے عبد، رسول، حبیب، منتخب اور بر گزیدہ خلائق محمدﷺ پر اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، جو نیکو کار، پاک و پاکیزہ اور بہترین خلق ہیں، ایسی رحمت جس کے شمار پر تیرے علاوہ کوئی قادر نہ ہو، اور آج کے دن تیرے ایمان لانے والے بندوں میں سے جو بھی تجھ سے کوئی نیک دُعا مانگے تو ہمیں اس میں شریک کر دے اے تمام جہانوں کے پروردگار، اور ہمیں اور ان سب کو بخش دے اس لئے کہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔

اَللّٰهُمَّ اِلَیْكَ تَعَمَّدْتُّ بِحَاجَتِیْ، وَ بِكَ اَنْزَلْتُ الْیَوْمَ فَقْرِیْ وَ فَاقَتِیْ وَ مَسْكَنَتِیْ، وَ اِنِّیْ بِمَغْفِرَتِكَ وَ رَحْمَتِكَ اَوْثَقُ مِنِّیْ بِعَمَلِیْ، وَ لَمَغْفِرَتُكَ وَ رَحْمَتُكَ اَوْسَعُ مِنْ ذُنُوْبِیْ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ، وَ تَوَلَّ قَضَآءَ كُلِّ حَاجَةٍ هِیَ لِیْ بِقُدْرَتِكَ عَلَیْهَا، وَ تَیْسِیْرِ ذٰلِكَ عَلَیْكَ، وَ بِفَقْرِیْۤ اِلَیْكَ، وَ غِنَاكَ عَنِّیْ، فَاِنِّیْ لَمْ اُصِبْ خَیْرًا قَطُّ اِلَّا مِنْكَ، وَ لَمْ یَصْرِفْ عَنِّیْ سُوْٓءًا قَطُّ اَحَدٌ غَیْرُكَ، وَ لَاۤ اَرْجُوْ لِاَمْرِ اٰخِرَتِیْ وَ دُنْیَایَ سِوَاكَ.

اے اللہ! میں اپنی حاجتیں تیری طرف لایا ہوں، اور اپنے فقر و فاقہ و احتیاج کا بارگراں تیرے در پر لا اتارا ہے، اور میں اپنے عمل سے کہیں زیادہ تیری آمرزش و رحمت پر مطمئن ہوں، اور بے شک تیری مغفرت و رحمت کا دامن میرے گناہوں سے کہیں زیادہ وسیع ہے، لہٰذا تو محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور میری ہر حاجت تو ہی بر لا، اپنی اس قدرت کی بدولت جو تجھے اس پر حاصل ہے، اور یہ تیرے لئے سہل و آسان ہے، اور اس لئے کہ میں تیرا محتاج اور تو مجھ سے بے نیاز ہے، اور اس لئے کہ میں کسی بھلائی کو حاصل نہیں کر سکا مگر تیری جانب سے، اور تیرے سوا کوئی مجھ سے دکھ درد دور نہیں کر سکا، اور میں دنیا و آخرت کے کاموں میں تیرے علاوہ کسی سے امید نہیں رکھتا۔

اَللّٰهُمَّ مَنْ تَهَیَّاَ وَ تَعَبَّاَ، وَ اَعَدَّ وَ اسْتَعَدَّ لِوِفَادَةٍ اِلٰى مَخْلُوْقٍ، رَجَآءَ رِفْدِهٖ وَ نَوَافِلِهٖ، وَ طَلَبَ نَیْلِهٖ وَ جَآئِزَتِهٖ، فَاِلَیْكَ یَا مَوْلَایَ كَانَتِ الْیَوْمَ تَهْیِئَتِیْ وَ تَعْبِئَتِیْ وَ اِعْدَادِیْ وَ اسْتِعْدَادِیْ، رَجَآءَ عَفْوِكَ وَ رِفْدِكَ وَ طَلَبَ نَیْلِكَ وَ جَآئِزَتِكَ.

اے اللہ! جو کوئی صلہ و عطا کی امید اور بخشش و انعام کی خواہش لے کر کسی مخلوق کے پاس جانے کیلئے کمر بستہ و آمادہ اور تیار و مستعد ہو تو اے میرے مولا و آقا! آج کے دن میری آمادگی و تیاری اور سر و سامان کی فراہمی و مستعدی تیرے عفو و عطا کی امید اور بخشش و انعام کی طلب کیلئے ہے۔

اَللّٰهُمَّ فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ، وَ لَا تُخَیِّبِ الْیَوْمَ ذٰلِكَ مِنْ رَّجَآئِیْ، یَا مَنْ لَّا یُحْفِیْهِ سَآئِلٌ وَ لَا یَنْقُصُهٗ نَآئِلٌ، فَاِنِّیْ لَمْ اٰتِكَ ثِقَةً مِّنِّیْ بِعَمَلٍ صَالِحٍ قَدَّمْتُهٗ، وَ لَا شَفَاعَةِ مَخْلُوْقٍ رَّجَوْتُهٗ اِلَّا شَفَاعَةَ مُحَمَّدٍ وَّ اَهْلِ بَیْتِهٖ، عَلَیْهِ وَ عَلَیْهِمْ سَلَامُكَ، اَتَیْتُكَ مُقِرًّا بِالْجُرْمِ وَ الْاِسَآءَةِ اِلٰى نَفْسِیْ، اَتَیْتُكَ اَرْجُوْ عَظِیْمَ عَفْوِكَ الَّذِیْ عَفَوْتَ بِهٖ عَنِ الْخَاطِئِیْنَ، ثُمَّ لَمْ یَمْنَعْكَ طُوْلُ عُكُوْفِهِمْ عَلٰى عَظِیْمِ الْجُرْمِ، اَنْ عُدْتَّ عَلَیْهِمْ بِالرَّحْمَةِ وَ الْمَغْفِرَةِ.

لہٰذا اے میرے معبود! تو محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور آج کے دن میری امیدوں میں مجھے ناکام نہ کر، اے وہ جو مانگنے والے کے ہاتھوں تنگ نہیں ہوتا، اور نہ بخشش و عطا سے جس کے ہاں کمی ہوتی ہے، میں اپنے کسی عمل خیر پر جسے آگے بھیجا ہو اور سوائے محمدﷺ اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کی شفاعت کے کسی مخلوق کی سفارش پر جس کی امید رکھی ہو اطمینان کرتے ہوئے تیری بارگاہ میں حاضر نہیں ہوا، میں تو اپنے گناہ اور اپنے حق میں برائی کا اقرار کرتے ہوئے تیرے پاس حاضر ہوا ہوں، درآنحالیکہ میں تیرے اس عفو عظیم کا امیدوار ہوں جس کے ذریعہ تو نے خطاکاروں کو بخش دیا، پھر یہ کہ ان کا بڑے بڑے گناہوں پر عرصہ تک جمے رہنا تجھے ان پر مغفرت و رحمت کی احسان فرمائی سے مانع نہ ہوا۔

فَیَا مَنْ رَّحْمَتُهٗ وَاسِعَةٌ، وَ عَفْوُهٗ عَظِیْمٌ، یَا عَظِیْمُ یَا عَظِیْمُ، یَا كَرِیْمُ یَا كَرِیْمُ، صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ، وَ عُدْ عَلَیَّ بِرَحْمَتِكَ، وَ تَعَطَّفْ عَلَیَّ بِفَضْلِكَ، وَ تَوَسَّعْ عَلَیَّ بِمَغْفِرَتِكَ.

اے وہ جس کی رحمت وسیع اور عفو و بخشش عظیم ہے! اے بزرگ! اے عظیم! اے بخشندہ! اے کریم! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور اپنی رحمت سے مجھ پر احسان، اور اپنے فضل و کرم کے ذریعہ مجھ پر مہربانی فرما، اور میرے حق میں اپنے دامن مغفرت کو وسیع کر۔

اَللّٰهُمَّ اِنَّ هٰذَا الْمَقَامَ لِخُلَفَآئِكَ وَ اَصْفِیَآئِكَ، وَ مَوَاضِعَ اُمَنَآئِكَ فِی الدَّرَجَةِ الرَّفِیْعَةِ الَّتِی اخْتَصَصْتَهُمْ بِهَا قَدِ ابْتَزُّوْهَا، وَ اَنْتَ الْمُقَدِّرُ لِذٰلِكَ، لَا یُغَالَبُ اَمْرُكَ، وَ لَا یُجَاوَزُ الْمَحْتُوْمُ مِنْ تَدْبِیْرِكَ‏ كَیْفَ شِئْتَ وَ اَنّٰى شِئْتَ، وَ لِمَاۤ اَنْتَ اَعْلَمُ بِهٖ غَیْرُ مُتَّهَمٍ عَلٰى خَلْقِكَ، وَ لَا لِاِرَادَتِكَ، حَتّٰى عَادَ صِفْوَتُكَ وَ خُلَفَآؤُكَ مَغْلُوْبِیْنَ مَقْهُوْرِینَ مُبْتَزِّیْنَ، یَرَوْنَ حُكْمَكَ مُبَدَّلًا، وَ كِتَابَكَ مَنبُوْذًا، وَ فَرَآئِضَكَ مُحَرَّفَةً عَنْ جِهَاتِ اَشْرَاعِكَ، وَ سُنَنَ نَبِیِّكَ مَتْرُوْكَةً.

بار الٰہا!یہ مقام (خطبہ و امامت نماز جمعہ) تیرے جانشینوں اور برگزیدہ بندوں کیلئے تھا، اور تیرے امانتداروں کا محل تھا، درآنحالیکہ تو نے اس بلند منصب کے ساتھ انہیں مخصوص کیا تھا (غصب کرنے والوں نے) اسے چھین لیا، اور تو ہی روز ازل سے اس چیز کا مقدر کرنے والا ہے، نہ تیرا امرو فرمان مغلوب ہو سکتا ہے اور نہ تیری قطعی تدبیر (قضا و قدر) سے جس طرح تو نے چاہا ہو اور جس وقت چاہا ہو تجاوز ممکن ہے، اس مصلحت کی وجہ سے جسے تو ہی بہتر جانتا ہے، بہرحال تیری تقدیر اور تیرے ارادہ و مشیت کی نسبت تجھ پر الزام عائد نہیں ہو سکتا، یہاں تک کہ (اس غصب کے نتیجہ میں) تیرے برگزیدہ اور جانشین مغلوب و مقہور ہو گئے، اور ان کا حق ان کے ہاتھ سے جاتا رہا، وہ دیکھ رہے ہیں کہ تیرے احکام بدل دیئے گئے، تیری کتاب پس پشت ڈال دی گئی، تیرے فرائض و واجبات تیرے واضح مقاصد سے ہٹا دیئے گئے، اور تیرے نبیؐ کے طور و طریقے متروک ہو گئے۔

اَللّٰهُمَّ الْعَنْ اَعْدَآءَهُمْ مِنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ الْاٰخِرِیْنَ، وَ مَنْ رَّضِیَ بِفِعَالِهِمْ وَ اَشْیَاعَهُمْ وَ اَتْبَاعَهُمْ.

بارالٰہا! تو ان برگزیدہ بندوں کے اگلے اور پچھلے دشمنوں پر، اور ان پر جو ان دشمنوں کے عمل و کردار پر راضی و خوشنود ہوں، اور جو ان کے تابع اور پیروکار ہوں لعنت فرما۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ، اِنَّكَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ، كَصَلَوَاتِكَ وَ بَرَكَاتِكَ وَ تَحِیَّاتِكَ عَلٰۤى اَصْفِیَآئِكَ اِبْرَاهِیْمَ وَ اٰلِ اِبْرَاهِیْمَ، وَ عَجِّلِ الْفَرَجَ وَ الرَّوْحَ وَ النُّصْرَةَ وَ التَّمْكِیْنَ وَ التَّاْیِیْدَ لَهُمْ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر ایسی رحمت نازل فرما، بیشک تو قابل حمد و ثنا بزرگی والا ہے، جیسی رحمتیں، برکتیں اور سلام تو نے اپنے منتخب و برگزیدہ ابراہیمؑ اور آل ابراہیمؑ پر نازل کئے ہیں، اور ان کیلئے کشائش، راحت، نصرت، غلبہ اور تائید میں تعجیل فرما۔

اَللّٰهُمَّ وَ اجْعَلْنِیْ مِنْ اَهْلِ التَّوْحِیْدِ وَ الْاِیْمَانِ بِكَ، وَ التَّصْدِیْقِ بِرَسُوْلِكَ، وَ الْاَئِمَّةِ الَّذِیْنَ حَتَمْتَ طَاعَتَهُمْ مِمَّنْ یَّجْرِیْ ذٰلِكَ بِهٖ وَ عَلٰى یَدَیْهِ، اٰمِیْنَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ.

بار الٰہا! مجھے توحید کا عقیدہ رکھنے والوں، تجھ پر ایمان لانے والوں، اور تیرے رسولؐ اور ان آئمہ ؑکی تصدیق کرنے والوں میں سے قرار دے، جن کی اطاعت کو تو نے واجب کیا ہے، ان لوگوں میں سے جن کے وسیلہ اور جن کے ہاتھوں سے (توحید، ایمان اور تصدیق) یہ سب چیزیں جاری کرے، میری دُعا کو قبول فرما اے تمام جہانوں کے پروردگار!۔

اَللّٰهُمَّ لَیْسَ یَرُدُّ غَضَبَكَ اِلَّا حِلْمُكَ، وَ لَا یَرُدُّ سَخَطَكَ اِلَّا عَفْوُكَ، وَ لَا یُجِیْرُ مِنْ عِقَابِكَ اِلَّا رَحْمَتُكَ، وَ لَا یُنْجِیْنِیْ مِنْكَ اِلَّا التَّضَرُّعُ اِلَیْكَ وَ بَیْنَ یَدَیْكَ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ، وَ هَبْ لَنا- یَاۤ اِلٰهِیْ- مِنْ لَّدُنْكَ فَرَجًا بِالْقُدْرَةِ الَّتِیْ بِهَا تُحْیِیْۤ اَمْوَاتَ الْعِبَادِ، وَ بِهَا تَنْشُرُ مَیْتَ الْبِلَادِ، وَ لَا تُهْلِكْنِیْ- یَاۤ اِلٰهِیْ- غَمًّا حَتّٰى تَسْتَجِیْبَ لِیْ، وَ تُعَرِّفَنِی الْاِجَابَةَ فِیْ دُعَآئِیْ، وَ اَذِقْنِیْ طَعْمَ الْعَافِیَةِ اِلٰى مُنْتَهٰۤى اَجَلِیْ، وَ لَا تُشْمِتْ بِیْ عَدُوِّیْ، وَ لَا تُمَكِّنْهُ مِنْ عُنُقِیْ، وَ لَا تُسَلِّطْهُ عَلَیَّ.

بار الٰہا! تیرے حلم کے سوا کوئی چیز تیرے غضب کو ٹال نہیں سکتی، اور تیرے عفو و درگزر کے سوا کوئی چیز تیری ناراضگی کو پلٹا نہیں سکتی، اور تیری رحمت کے سوا کوئی چیز تیرے عذاب سے پناہ نہیں دے سکتی، اور تیری بارگاہ میں گڑگڑاہٹ کے علاوہ کوئی چیز تجھ سے رہائی نہیں دے سکتی، لہٰذا تو محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور اپنی اس قدرت سے جس سے تو مُردوں کو زندہ اور بنجر زمینوں کو شاداب کرتا ہے مجھے اپنی جانب سے غم اندوہ سے چھٹکارا دے، بارالٰہا! جب تک تو میری دُعا قبول نہ فرمائے اور اس کی قبولیت سے آگاہ نہ کر دے مجھے غم و اندوہ سے ہلاک نہ کرنا، اور زندگی کے آخری لمحوں تک مجھے صحت و عافیت کی لذت سے شاد کام رکھنا، اور دشمنوں کو (میری حالت پر) خوش ہونے اور میری گردن پر سوار اور مجھ پر مسلط ہونے کا موقعہ نہ دینا۔

اِلٰهِیْۤ اِنْ رَّفَعْتَنِیْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَضَعُنِیْ، وَ اِنْ وَضَعْتَنِیْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَرْفَعُنِیْ، وَ اِنْ اَكْرَمْتَنِیْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یُهِیْنُنِیْ، وَ اِنْ اَهَنْتَنِیْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یُكْرِمُنِیْ، وَ اِنْ عَذَّبْتَنِیْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَرْحَمُنِیْ، وَ اِنْ اَهْلَكْتَنِیْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَعْرِضُ لَكَ فِیْ عَبْدِكَ، اَوْ یَسْئَلُكَ عَنْ اَمْرِهٖ.

بارالٰہا! اگر تو مجھے بلند کرے تو کون پست کر سکتا ہے؟ اور تو پست کرے تو کون بلند کر سکتا ہے؟ اور تو عزّت بخشے تو کون ذلیل کر سکتا ہے؟ اور تو ذلیل کرے تو کون عزّت دے سکتا ہے؟ اور تو مجھ پر عذاب کرے تو کون مجھ پر ترس کھا سکتا ہے؟ اور اگر تو ہلاک کرے تو کون تیرے بندے کے بارے میں تجھ پر معترض ہو سکتا ہے یا اس کے متعلق تجھ سے کچھ پوچھ سکتا ہے۔

وَ قَدْ عَلِمْتُ‏ اَنَّهٗ لَیْسَ فِیْ حُكْمِكَ ظُلْمٌ، وَ لَا فِیْ نَقِمَتِكَ عَجَلَةٌ، وَ اِنَّمَا یَعْجَلُ مَنْ یَّخَافُ الْفَوْتَ، وَ اِنَّمَا یَحْتَاجُ اِلَى الظُّلْمِ الضَّعِیْفُ، وَ قَدْ تَعَالَیْتَ- یَاۤ اِلٰهِیْ- عَنْ ذٰلِكَ عُلُوًّا كَبِیْرًا.

اور مجھے خوب علم ہے کہ تیرے فیصلہ میں نہ ظلم کا شائبہ ہوتا ہے اور نہ سزا دینے میں جلدی ہوتی ہے، جلدی تو وہ کرتا ہے جسے موقع کے ہاتھ سے نکل جانے کا اندیشہ ہو، اور ظلم کی اسے حاجت ہوتی ہے جو کمزور و ناتواں ہو، اور تو اے میرے معبود ! ان چیزوں سے بہت بلند و بر تر ہے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ، وَ لَا تَجْعَلْنِیْ لِلْبَلَآءِ غَرَضًا، وَ لَا لِنَقِمَتِكَ نَصَبًا، وَ مَهِّلْنِیْ، وَ نَفِّسْنِیْ، وَ اَقِلْنِیْ عَثْرَتِیْ، وَ لَا تَبْتَلِیَنِّیْ بِبَلَآءٍ عَلٰۤى اَثَرِ بَلَآءٍ، فَقَدْ تَرٰى ضَعْفِیْ وَ قِلَّةَ حِیْلَتِیْ وَ تَضَرُّعِیْ اِلَیْكَ.

اے اللہ! تو محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے بلاؤں کا نشانہ اور اپنی عقوبتوں کا ہدف نہ قرار دے، مجھے مہلت دے اور میرے رنج و غم کو دور کر، میری لغزشوں کو معاف کر دے، اور مجھے ایک مصیبت کے بعد دوسری مصیبت میں مبتلا نہ کر، کیونکہ تو میری ناتوانی، بے چارگی اور اپنے حضور میری گڑگڑاہٹ کو دیکھ رہا ہے۔

اَعُوْذُ بِكَ اللّٰهُمَّ الْیَوْمَ مِنْ غَضَبِكَ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ وَ اَعِذْنِیْ.

بارالٰہا ! میں آج کے دن تیرے غضب سے تیرے ہی دامن میں پناہ مانگتا ہوں، تو محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے پناہ دے۔

وَ اَسْتَجِیْرُ بِكَ الْیَوْمَ مِنْ سَخَطِكَ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ وَ اَجِرْنِیْ.

اور میں آج کے دن تیری ناراضگی سے امان چاہتا ہوں، تو محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے امان دے۔

وَ اَسْئَلُكَ اَمْنًا مِّنْ عَذَابِكَ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ وَ اٰمِنِّیْ.

اور تیرے عذاب سے امن کا طلبگار ہوں، تو رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور مجھے (عذاب سے ) مطمئن کر دے۔

وَ اَسْتَهْدِیْكَ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ وَ اهْدِنِیْ.

اور تجھ سے ہدایت کا خواستگار ہوں، تو رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور مجھے ہدایت فرما۔

وَ اَسْتَنْصِرُكَ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ وَ انْصُرْنِیْ.

اور تجھ سے مدد چاہتا ہوں، تو رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور میری مدد فرما۔

وَ اَسْتَرْحِمُكَ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ وَ ارْحَمْنِیْ.

اور تجھ سے رحم کی درخواست کرتا ہوں، تو رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور مجھ پر رحم کر۔

وَ اَسْتَكْفِیْكَ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ وَ اكْفِنِیْ.

اور تجھ سے بے نیازی کا سوال کرتا ہوں، تو رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور مجھے بے نیاز کر دے۔

وَ اَسْتَرْزِقُكَ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ وَ ارْزُقْنِیْ.

اور تجھ سے روزی کا سوال کرتا ہوں، تو رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور مجھے روزی دے۔

وَ اَسْتَعِیْنُكَ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ وَ اَعِنِّیْ.

اور تجھ سے کمک کا طالب ہوں، تو رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور میری کمک فرما۔

وَ اَسْتَغْفِرُكَ لِمَا سَلَفَ مِنْ ذُنُوْبِیْ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ وَ اغْفِرْ لِیْ.

اور گزشتہ گناہوں کی آمرزش کا خواستگار ہوں، تو رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آل ؑپر اور مجھے بخش دے۔

وَ اَسْتَعْصِمُكَ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ وَ اعْصِمْنِیْ، فَاِنِّیْ لَنْ اَعُوْدَ لِشَیْ‏ءٍ كَرِهْتَهٗ مِنِّیْۤ اِنْ شِئْتَ ذٰلِكَ.

اور تجھ سے (گناہوں کے بارے میں) بچاؤ کا خواہاں ہوں، تو رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور مجھے (گناہوں سے) بچائے رکھ۔ اس لئے کہ اگر تیری مشیت شامل حال رہی تو کسی ایسے کام کا جسے تو مجھ سے ناپسند کرتا ہو مرتکب نہ ہوں گا۔

یَا رَبِّ یَا رَبِّ، یَا حَنَّانُ یَا مَنَّانُ، یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْاِكْرَامِ، صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اسْتَجِبْ لِیْ جَمِیْعَ مَا سَئَلْتُكَ، وَ طَلَبْتُ اِلَیْكَ، وَ رَغِبْتُ فِیْهِ اِلَیْكَ، وَ اَرِدْهُ وَ قَدِّرْهُ وَ اقْضِهٖ وَ اَمْضِهٖ، وَ خِرْ لِیْ فِیْمَا تَقْضِیْ مِنْهُ، وَ بَارِكْ لِیْ فِیْ ذٰلِكَ، وَ تَفَضَّلْ عَلَیَّ بِهٖ، وَ اَسْعِدْنِیْ بِمَا تُعْطِیْنِیْ مِنْهُ، وَ زِدْنِیْ مِنْ فَضْلِكَ وَ سَعَةِ مَا عِنْدَكَ، فَاِنَّكَ وَاسِعٌ كَرِیْمٌ، وَ صِلْ ذٰلِكَ‏ بِخَیْرِ الْاٰخِرَةِ وَ نَعِیْمِهَا، یَاۤ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ.

اے میرے پروردگار! اے میرے پروردگار! اے مہربان، اے نعمتوں کے بخشنے والے! اے جلالت و بزرگی کے مالک! تو رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور جو کچھ میں نے مانگا اور جو کچھ طلب کیا ہے اور جن چیزوں کے حصول کیلئے تیری بارگاہ کا رخ کیا ہے ،ان سے اپنا ارادہ، حکم اور فیصلہ متعلق کر، اور انہیں جاری کر دے، اور جو بھی فیصلہ کرے اس میں میرے لئے بھلائی قرار دے، اور مجھے اس میں برکت عطا کر، اور اس کے ذریعہ مجھ پر احسان فرما، اور جو عطا فرمائے اس کے وسیلہ سے مجھے خوش بخت بنا دے، اور میرے لئے اپنے فضل و کشائش کو جو تیرے پاس ہے زیادہ کر دے، اس لئے کہ تو تونگر و کریم ہے، اور اس کا سلسلہ آخرت کی خیر و نیکی اور وہاں کی نعمت فراواں سے ملا دے، اے تمام رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والے۔

ثُمَّ تَدْعُوْ بِمَا بَدَا لَكَ، وَ تُصَلِّیْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ اَلْفَ مَرَّةٍ، هٰكَذَا كَانَ یَفْعَلُ ؑ.

اس کے بعد جو چاہو دُعا مانگو اور ہزار مرتبہ محمدؐ اور ان کی آلؑ پر درود بھیجو کہ امام علیہم السلام ایسا ہی کیا کرتے تھے۔

–٭٭–

–٭٭–

حضرت یہ دُعا روز جمعہ اور عید الاضحیٰ کے موقعہ پر پڑھتے تھے۔ ’’روز جمعہ‘‘ کو ’’جمعہ‘‘ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس دن مسلمان نماز کیلئے ایک مقام پر مجتمع ہوتے ہیں۔ اور ’’اضحی‘‘، اضحاة کی جمع ہے۔ اور ’’اضحاة‘‘ اس بکری، دنبہ بھیڑ وغیرہ کو کہتے ہیں جو حج کے موقع پر ذبح کی جاتی ہے۔ اس ذبح کی بنیاد اس طرح پڑی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خواب کے ذریعہ اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذبح پر مامور ہوئے تو وہ اپنی تمناؤں کے مرکز اور دُعاؤں کے حاصل کو خود اپنے ہاتھوں سے ذبح کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو کہ جن کا سن اس وقت صرف تیرہ سال کا تھا بلا کر کہا کہ اے فرزند! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں تمہاری کیا رائے ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ﴿يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ۝۰ۡسَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَآءَ اللہُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۰۲﴾ [۱]: ”بابا آپؑ کو جو حکم ہوا ہے اس کو بجا لائیے، آپؑ ان شاء اللہ مجھے ثابت قدم پائیں گے“۔ جب اسماعیل علیہ السلام کو بھی آمادہ پایا تو رسی اور چھری لے کر قربان گاہِ محبت پر اپنی متاع عزیز کی قربانی کیلئے آ گئے اور اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کیلئے زمین پر لٹا دیا۔ کیا بعید ہے کہ اس موقع پر آسمان کانپا اور زمین تھرائی ہو، مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نہ ہاتھ کانپا اور نہ دل دھڑکا، بلکہ بڑے اطمینان سے اپنے جگر گوشہ کے حلقوم پر چھری رکھ دی اور قریب تھا کہ اسماعیل ذبح ہو جاتے کہ: ﴿قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْيَاۚ﴾ [۲]: ”تم نے خواب کو سچ کر دکھایا“ کی آواز نے اسماعیل کو بچا لیا اور ان کے بجائے دنبہ ذبح ہو گیا اور اسماعیل علیہ السلام ’’ذبیح اللہ‘‘ بن کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ عید الاضحیٰ اسی واقعہ کی یاد کو تازہ رکھنے کیلئے ہے۔ چنانچہ اس دن گائے، بکری، دنبہ وغیرہ کی قربانی دے کر اس قربانی کی یاد کو قائم کیا جاتا ہے۔

امام علیہ السلام نے اس دُعا میں چند امور واضح طور سے بیان فرمائے ہیں:

۱۔ نماز جمعہ اور نماز عیدین کی امامت آئمہ اہل بیت علیہم السلام سے مخصوص ہے اور ان کی موجودگی میں کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ وظائف امامت سر انجام دے۔ چنانچہ عبداللہ ابن دینار نے امام باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا:

يَا عَبْدَ اللّٰهِ! مَا مِنْ عِيْدٍ لِّلْمُسْلِمِيْنَ- اَضْحًى وَّ لَا فِطْرٍ اِلَّا وَ هُوَ يُجَدِّدُ لِاٰلِ مُحَمَّدٍ فِيْهِ حُزْنًا، قُلْتُ: وَ لِمَ ذَاكَ؟ قَالَ: لِاَنَّهُمْ يَرَوْنَ حَقَّهُمْ فِیْ يَدِ غَيْرِهِمْ.

اے عبد اللہ! مسلمانوں کی عید الاضحیٰ ہو یا عید الفطر اس میں آل محمد علیہم السلام کا غم و حزن تازہ ہو جاتا ہے۔ (عبد اللہ کہتے ہیں کہ:) میں نے عرض کیا کہ: یہ کس لئے؟ فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے حق کو اغیار کے ہاتھوں میں دیکھتے ہیں [۳]

اسی طرح نماز جمعہ کی امامت کا حق بھی امامؑ یا اس شخص کے علاوہ جسے امامؑ مامور فرمائے کسی دوسرے کو نہیں پہنچتا۔ البتہ زمانۂ غیبت میں جب کہ امام علیہ السلام تک دسترس نہیں ہے، نماز جمعہ واجب تخییری ہے۔ یعنی چاہے نماز جمعہ پڑھے چاہے نماز ظہر، لیکن نماز جمعہ افضل ہے۔ اور نماز عید مستحب ہے، خواہ جماعت سے ہو یا فرادی۔ اس لئے کہ نماز عید کے ساتھ کوئی اور فرد نہیں ہے کہ واجب تخییری صورت پذیر ہو سکے، بخلاف نماز جمعہ کے کہ اس کے ساتھ دوسری فرد ظہر موجود ہے۔ مقصد یہ ہے کہ نماز جمعہ اور نماز عیدین کے شرائطِ وجوب میں سے ایک شرط حضور امامؑ بھی ہے اور درصورتیکہ یہ شرط نہ پائی جائے تو وجوب باقی نہ رہے گا۔ اس لئے علماء نماز عیدین کے استحباب کے قائل ہیں، لیکن جمعہ میں استحباب کے قائل اس لئے نہیں ہیں کہ جمعہ ظہر کے قائم مقام ہوتا ہے جس سے نماز ظہر ساقط ہو جاتی ہے اور واجب کا بدل مستحب نہیں ہو سکتا اور نہ دونوں کو بہ نیت وجوب جمع کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے ان دونوں میں سے ایک کو بہ نیت وجوب بجا لانا کافی ہے۔ البتہ اس اعتبار سے جمعہ کو مستحب کہا جا سکتا ہے کہ یہ اپنی دوسری فرد ظہر کے مقابلہ میں افضل ہے۔

۲۔ خلافت و امامت کے صحیح ورثہ دار آئمہ اہل بیت علیہم السلام ہیں۔ کیونکہ امامت کے شرائط میں سے افضلیت، عصمت اور منصوص ہونا ہے اور یہ شرائط ان کے علاوہ کسی ایک میں نہیں پائے جاتے۔ چنانچہ اس سلسلہ کی فرد اول حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو پیغمبر اکرم ﷺ نے «مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَھٰذَا عَلِیٌّ مَّوْلَاہُ«کے اعلان سے اپنا جانشین مقرر کیا اور خلافت کیلئے نامزد فرمایا۔ مگر ہوا یہ کہ اس کے مقابلہ میں سقیفہ بنی ساعدہ میں جمہوریت کے نام پر خلیفة المسلمین منتخب کر لیا گیا۔ لیکن جس جمہوریت پر خلافت کی بنیاد رکھی گئی تھی وہ عوام میں جمہوریت کا احساس پیدا نہ کر سکی اور آخر اسے ملوکیت کے سامنے جھکنا پڑا اور قیصری و کسروی طرز کی حکومت دنیائے اسلام پر چھا گئی جس نے اپنے استحکام کیلئے ظلم و تشدد کا سہارا لیا اور اس دور استبدادیت میں آئمہ اہل بیت علیہم السلام میں سے کچھ حق کی خاطر قتل کئے گئے، کچھ زہر سے مارے گئے، کچھ قید و بند میں ڈالے گئے اور ہر دور میں قہرمانی طاقتوں کا نشانہ بنتے رہے، مگر حق کی خاموش تبلیغ جو اِن کا فریضہ منصبی تھا انجام دیتے رہے اور یہ اسی خاموش تبلیغ کا نتیجہ ہے کہ اسلام کے نقوش صفحۂ ہستی سے محو نہ ہو سکے، ورنہ کون سی کوشش تھی جو اسلام کے خد و خال کے بگاڑنے میں اٹھا رکھی ہو۔

۳۔ پیغمبر اکرم ﷺ کے بعد شریعت کے نقش و نگار کو بگاڑ کر خود ساختہ شریعت کو کھڑا کر دیا گیا۔ خدا کی کتاب اور رسولؐ کی سنت پس پشت ڈال دی گئی اور فرائض و واجبات ناقابل عمل قرار پا گئے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے:

قَالَتْ اُمَّ الدَّرْدَآءِ: دَخَلَ عَلَیَّ اَبُو الدَّرْدَآءِ وَهُوَ مُغْضَبٌ، فَقُلْتُ: مَاۤ اَغْضَبَكَ؟ فَقَالَ: وَاللّٰهِ! مَا اَعْرِفُ مِنْ اُمَّةِ مُحَمَّدٍﷺ شَيْئًا اِلَّاۤ اَنَّهُمْ يُصَلُّوْنَ جَمِيْعًا.

ام درداء کہتی ہیں کہ: ابوالدرداء غصہ میں بھرے ہوئے میرے پاس آئے۔ میں نے کہا کہ یہ غصہ کس بنا پر ہے؟ کہا کہ خدا کی قسم! محمدﷺ کی شریعت میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی، سوا اس کے کہ لوگ ایک ساتھ نماز پڑھ لیتے ہیں۔ [۴]

دوسری روایت میں ہے:

عَنْ اَنَسٍ، قَالَ: مَاۤ اَعْرِفُ شَيْئًا مِّمَّا كَانَ عَلٰى عَهْدِ رَسُوْلِ اللهِﷺ، قِيْلَ: الصَّلٰوةُ؟ قَالَ: اَلَيْسَ صَنَعْتُمْ مَا صَنَعْتُمْ فِيْهَا.

انس سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ: میں زمانہ رسالت کی ایک چیز کو بھی اس کی اصلی حالت پر نہیں پاتا۔ ان سے کہا گیا کہ نماز؟ کہا کہ نماز میں کیا تم نے وہ تصرفات نہیں کئے کہ جو تمہیں معلوم ہیں کہ کئے ہیں۔ (صحيح بخاری، ج ۳، و ۳۰۲)

یہ ہے اعیان صحابہ میں سے حضرت ابوالدرداء اور انس بن مالک کی گواہی کہ پیغمبر اکرم ﷺ کے بعد شریعت میں ترمیم و تنسیخ شروع ہو گئی اور کوئی چیز اپنی اصلی صورت پر باقی نہ رہی، یہاں تک کہ نماز بھی تصرفات سے محفوظ نہ رہ سکی اور اس میں بھی تغیر و تبدل پیدا کر دیا گیا۔ یہ اجمال بہت سے تفصیلات کا آئینہ دار ہے۔

تو خود حدیث مفصل بخوان ازین مجمل

۴۔ ان لوگوں پر جو مستحق لعنت ہیں لعنت کرنا نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے اور اس کا استحباب عید الاضحیٰ کے مبارک موقعہ پر عمل امام علیہ السلام سے ظاہر ہے اور اس کے جواز کیلئے قرآن و حدیث کو بھی پیش کیا جا سکتا ہے جس سے یہ بھی ظاہر ہو جائے گا کہ لعنت دشنام نہیں ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَہُمُ اللہُ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا مُّہِيْنًا۝۵۷﴾

وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کو ایذا پہنچاتے ہیں ان پر خدا دنیا و آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کیلئے رسوا کرنے والا عذاب مہیا کیا ہے۔ [۵]

اسی طرح احادیث نبویؐ میں صفات کے اعتبار سے بھی لعنت وارد ہوئی ہے جیسے رشوت خوار، سود خوار، شراب خوار وغیرہ پر اور نام کے ساتھ بھی لعنت وارد ہوئی ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں:

وَ لٰكِنْ رَّسُوْلُ اللّٰہِﷺ لَعَنَ اَبَا مَرْوَانَ وَ مَرْوَانُ فِیْ صُلْبِهٖ، فَمَرْوَانُ بَعْضُ مَنْ لَّعَنَهُ اللهُ.

رسول اللہﷺ نے مروان کے باپ (حکم) پر لعنت کی اور مروان اس کی صلب میں تھا اور وہ بھی اللہ کی لعنت میں سے حصہ پا رہا تھا۔ (تاریخ الخلفاء، ص ۱۳۸)

۵۔ آئمہ اہل بیت علیہم السلام کی اطاعت واجب و لازم ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے:

﴿اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ﴾

اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور جو تم میں سے صاحبان امر ہوں۔ [۶]

اولی الامر وہی ہو سکتے ہیں جو پیغمبرﷺ کے نمائندے اور ان کے قائم مقام ہوں تا کہ ان کی اطاعت پیغمبرؐ کی اطاعت کے ہمدوش قرار پا سکے اور جن کا دامن قرآن کی طرح پاک اور ہر رجس سے منزہ ہو تا کہ ان کی اطاعت میں ان کے دامن کی آلودگی مانع نہ ہو اور پیغمبر اسلامﷺ نے حدیث ثقلین "اِنِّیْ تَارِكٌ فِيْكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللّٰهِ وَ عِتْرَتِیْۤ اَهْلَ بَيْتِیْ” [۷]: (میں تم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑنے جاتا ہوں: ایک قرآن اور دوسرے میری عترت جو میرے اہل بیتؑ ہیں) میں قرآن کی طرح اہل بیت علیہم السلام کو بھی واجب الاطاعت قرار دیا ہے اور اسی اطاعت سے ہدایت کو وابستہ کیا ہے اور جس اطاعت پر ہدایت منحصر ہو گی اس کے لزوم سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ سورۂ صافات، آیت ۱۰۲

[۲]۔ سورۂ صافات، آیت ۱۰۳

[۳]۔ الکافی، ج ۴، ص ۱۷۰

[۴]۔ صحیح البخاری، ج ۱، ص ۱۳۱، حدیث ۶۵۰

[۵]۔ سورۂ احزاب، آیت ۵۷

[۶]۔ سورۂ نسا، آیت ۵۹

[۷]۔ کمال الدین، ج ۱، ص ۶۴۔ معجم صغیر، طبرانی، ج ۱، ص ۲۲۶، حدیث ۳۶۷

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button